اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں كے یہ کتبے بھی پڑھا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی كے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں كے یہ کتبے بھی پڑھا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی كے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
خود کو سبز ہی رکھا آنسوؤں کی بارش میں
ورنہ ہجر کا موسم کس کو راس آتا ہے
تو ہواؤں کا موسم تجھ کو کیا خبر جاناں
گردِ بعد گمانی سے دل بھی ٹوٹ جاتا ہے
سمندر میں اترتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تیری آنكھوں کو پڑھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تمہارا نام لکھنے کی اجازت چھن گئی جب سے
کوئی بھی لفظ لکھتا ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں