یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے

یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبل بے تاب گفتگو کرتے
باتوں میں لگائے ہی مجھے رکھتا ہے ظالم
وعدے وہی جھوٹے ہیں وہی شام و سحر روز
قرب اچھا ہے مگر اتنی بھی شدت سے نہ مل
یہ نہ ہو تجھ کو مرے روگ پرانے لگ جائیں
مسلسل حادثوں سے بس مجھے اتنی شکایت ہے
کہ یہ آنسوں بہانے کی بھی مہلت نہیں دیتے
اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خوددار ہوا کرتے ہیں
او دل توڑ کے جانے والے دل کی بات بتاتا جا
اب میں دل کو کیا سمجھاؤں مجھ کو بھی سمجھاتا جا