وہ آ رہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے
وہ آ رہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے
شب فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے
وہ آ رہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے
شب فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے
کسی سے جدا ہونا اگر اتنا آسان ہوتا فراز
تو جسم سے روح کو لینے کبھی فرشتے نہیں آتے
اب کے اس بزم میں کچھ اپنا پتہ بھی دینا
پاؤں پر پاؤں جو رکھنا تو دبا بھی دینا
شاید تو کبھی پیاسا میری طرف لوٹ آئے فراز
آنكھوں میں لیے پھرتا ہوں دریا تیری خاطر
اے شوق نظارہ کیا کہئے نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں
اے ذوق تصور کیا کیجے ہم صورت جاناں بھول گئے
اک بار اور دیکھ کر آزاد کر دے مجھے محسن
کہ میں آج بھی تیری پہلی نظر کی قید میں ہوں
روشنی ہوتی نہیں اور دھواں اٹھتا ہے
یہ چراغوں کا بدن ایسے جلایا کس نے ؟