دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم

دل مضطر سے پوچھ اے رونق بزم
میں خود آیا نہیں لایا گیا ہوں
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
میرے صبر کی انتہا کیا پوچھتے ہو فراز
وہ مجھ سے لپٹ كے رویا کسی اور كے لیے
چپ کہیں اور لیے پھرتی تھی باتیں کہیں اور
دن کہیں اور گزرتے تھے تو راتیں کہیں اور
جب اس کی زلف میں پہلا سفید بال آیا
تب اس کو پہلی ملاقات کا خیال آیا
دو ہی چیزیں اس دھرتی میں دیکھنے والی ہیں
مٹی کی سندرتا دیکھو اور مجھے دیکھو
اب تک نہ خبر تھی مجھے اجڑے ہوئے گھر کی
وہ آئے تو گھر بے سر و ساماں نظر آیا