رات بھی نیند بھی کہانی بھی

رات بھی نیند بھی کہانی بھی
ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی
کوششیں خاک ہوئیں خود کے ہنسانے کی خلؔش
عہدِ قسمت تھا ہمیں یوں ہی رلائے رکھنا
شفیق خلؔش
آج تک اپنی جگہ دل میں نہیں اپنے ہوئی
یار کے دل میں بھلا پوچھو تو گھر کیوں کر کریں
میں نے جو لکھ دیا وہ خود ہے گواہی اپنی
جو نہیں لکھا ابھی اس کی بشارت دوں گا
جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو