مت کر چرچا اپنے حسن کا اب زمانے میں

مت کر چرچا اپنے حسن کا اب زمانے میں
اِس دغا باز چہرے کو سب پہچانتے ہیں لوگ
مت کر چرچا اپنے حسن کا اب زمانے میں
اِس دغا باز چہرے کو سب پہچانتے ہیں لوگ
رہتے تھے کبھی جن کے دل میں ہم جان سے بھی پیاروں کی طرح
بیٹھے ہیں انہیں کے کوچے میں ہم آج گنہ گاروں کی طرح
آئے بھی لوگ بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈتا تری محفل میں رہ گیا
وہ خط جو تم نے کبھی لکھا ہی نہیں
میں روز بیٹھ کر اس کا جواب لکھتا ہوں
شکایتیں بھی بہت ہیں حکایتیں بھی بہت
مزا تو جب ہے کہ یاروں کے رو بہ رو کہیے
میرے ٹوٹے حوصلے کے پر نکلتے دیکھ کر
اس نے دیواروں کو اپنی اور اونچا کر دیا