کتنے لہجوں کے غلافوں میں چھپاؤں تجھ کو

کتنے لہجوں کے غلافوں میں چھپاؤں تجھ کو
شہر والے مرا موضوع سخن جانتے ہیں
کتنے لہجوں کے غلافوں میں چھپاؤں تجھ کو
شہر والے مرا موضوع سخن جانتے ہیں
مجھے دے رہے ہیں تسلیاں وہ ہر ایک تازہ پیام سے
کبھی آ کے منظر عام پر کبھی ہٹ کے منظر عام سے
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے
ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے
آئے تو سہی بر سر الزام ہی آئے
جواب ہم نہیں سنتے ، بتا یہ اے قاصد
ہوا قبول ہمارا سلام بھی کہ نہیں
رات کو رات ہی اس بار کہا ہے ہم نے
ہم نے اس بار بھی توہین عدالت نہیں کی
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں