دن کے ڈھلتے ہی اُجڑ جاتی ہیں آنکھیں ایسے

دن کے ڈھلتے ہی اُجڑ جاتی ہیں آنکھیں ایسے
جس طرح شام کو بازار کسی گاؤں میں
دن کے ڈھلتے ہی اُجڑ جاتی ہیں آنکھیں ایسے
جس طرح شام کو بازار کسی گاؤں میں
دل کا کیا ہے دل نے کتنے منظر دیکھے لیکن
آنکھیں پاگل ہو جاتی ہیں ایک خیال سے پہلے
جب نظارے تھے تو آنکھوں کو نہیں تھی پروا
اب انہی آنکھوں نے چاہا تو نظارے نہیں تھے
وہ جن کی آنکھوں میں دیکھنے کو سب ہی کچھ ہو
ان کے چہرے کو دیکھنے کی طلب کیوں کروں میں
صبا تو کیا کہ مجھے دھوپ تک جگا نہ سکی
کہاں کی نیند اُتر آئی ہے ان آنکھوں میں
آنکھ کے ایک اشارے سے کیا گل اس نے
جل رہا تھا جو دیا اتنی ہوا ہوتے ہوئے
اس کی آنكھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز
سونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی