طوفانِ غمِ جاں گزر ہی جائے گا
طوفانِ غمِ جاں گزر ہی جائے گا
دیکھنا ہے حوصلہ کتنا ہے بادباں میں
ضبط بھی صبر بھی امکان میں سب کچھ ہے مگر
پہلے کم بخت مرا دل تو مرا دل ہو جائے
کبھی نہ کبھی پورا یہ خواب ہوتا
تم ساتھ ہوتے ، کوئی نہ حجاب ہوتا
جب اپنا وصال ہوتا کوئی نہ خلل پڑتا
نہ رسم حیا ہوتی نہ کوئی نقاب ہوتا
معاشرے کی بندشوں نے ہمیں ناکارہ کر دیا
تمہیں کسی اور کا اور ہمیں تمہارا کردیا
تو خود تو ہو گئی پاکیزگی کا پیکر
لوگوں کے سامنا ہمیں آوارہ کر دیا
اب کچھ نہیں بچا اس حقیر کی جھولی میں
دل ہی تھا وہ بھی تیرے نام سارا کا سارا کر دیا
تیری بے وفائی کی میں کیا داد دوں کہ
مجھے بھی ساتھ رکھا اور اسے بھی اشارہ کر دیا
اس نے محبت کی یہ کہانی بنا کر انس
عاشق اور عشق دونوں کو بے سہارا کر دیا
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
کوچے کو تیرے چھوڑ کر جوگی ہی بن جائیں مگر
جنگل ترے پربت ترے بستی تری صحرا ترا
محبت کرنے والوں کی تجارت بھی انوکھی ہے
منافع چھوڑ دیتے ہیں خسارے بانٹ لیتے ہیں