خاک کو خاک لے اڑی صائم

خاک کو خاک لے اڑی صائم
تکبر رہ گیا وہیں کا وہیں
آیا ہی تھا ابھی مرے لب پہ وفا کا نام
کچھ دوستوں نے ہاتھ میں پتھر اٹھا لیے
نہ جانے کون سا آسیب دل میں بستا ہے
کہ جو بھی ٹھہرا وہ آخر مکان چھوڑ گیا
بے نور سی لگتی ہے اس سے بچھڑ کے یہ زندگی
زید اب چراغ تو جلتے ہیں مگر اجالا نہیں کرتے
میرے کانوں کو دستک کی ضرورت نہیں پڑتی
مجھے عشق اٹھاتا ہے آذان سے پہلے
بھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے
تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے
منزل نہیں ہوں خضر نہیں راہزن نہیں
منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے
لے دے کے اپنے پاس فقط اک نظر تو ہے
کیوں دیکھیں زندگی کو کسی کی نظر سے ہم