چھالے تھے جنہیں دیکھ کے کہنے لگا بچہ

چھالے تھے جنہیں دیکھ کے کہنے لگا بچہ
بابا میری ہاتھوں میں ستارے تو نہیں ہیں
چھالے تھے جنہیں دیکھ کے کہنے لگا بچہ
بابا میری ہاتھوں میں ستارے تو نہیں ہیں
اسی کھنڈر میں کہیں کچھ دیے ہیں ٹوٹے ہوئے
انہیں سے کام چلاؤ بڑی اداس ہے رات
میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا
مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا
یہ تیرگی مرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو
میں تیرے شہر کے سارے دیئے بجھا دوں گا
ڈھُونڈتا پھرتا ہوں اے اقبالؔ اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں
رستے کا انتخاب ضروری سا ہو گیا
اب اختتام باب ضروری سا ہو گیا
ہم چپ رہے تو اور بھی الزام آئے گا
اب کچھ نہ کچھ جواب ضروری سا ہو گیا
جانکنی میں مریضِ ہستی ہے
مانگتا ہے دوا زمانے سے
چارہ سازو! سنہری موقع ہے
زہر دے دو اسی بہانے سے