تیری یاد آئے تو نیند جاتی رہتی ہے

تیری یاد آئے تو نیند جاتی رہتی ہے
خواب ٹوٹ جاتے ہیں اب بھی تیری آہٹ پر
تیری یاد آئے تو نیند جاتی رہتی ہے
خواب ٹوٹ جاتے ہیں اب بھی تیری آہٹ پر
میں نے چاہا تجھے عید پہ کچھ پیش کروں
جس میں احساس کے سب رنگ ہوں روشن روشن
جس میں آنكھوں كے تراشے ہوئے موتی لاکھوں
جس میں شامل ہو میرے قلب کی دھڑکن دھڑکن
اور کچھ بھی نہیں چاہتی میں اپنی اس حسین زندگی میں
یا رب
دعا ہے کے کسی کے دکھ کی وجہ میری ذات نہ ہو
تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
مایوسئ مآل محبت نہ پوچھیے
اپنوں سے پیش آئے ہیں بیگانگی سے ہم
عید کا دن گلے آج تو مل لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
عشق اِس طرح كے گستاخ تقاضے نہ کرے
حُسن مزدور بھی ، مجبور بھی ، مغرور بھی ہے
جو بات نہیں کرتے
ان بولتے رنگوں میں
میں نے تمهیں سوچا ہے
جو دل سے گزرتے ہیں
ان دلفریب راستوں پہ
میں نے تمهیں دیکها ہے