غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا

غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
خوابوں کا گلستان ہے تو ، ارمانوں کا چمن
جنت سے کم نہیں ہے تو میرے لیے وطن
پربت ہمالیہ عزم کا پرچم کہیں جسے
گنگ و جمن کہیں پیار کا سنگم کہیں جسے
اکیلے ہم ہی شامل نہیں اس جرم میں
نظریں جب بھی ملیں تھیں مسکرائے تم بھی تھے
حمدِ باری تعالی۔
اے خُدا اب تو مِرا تُو ہی بھرم قائِم رکھ
میری آنکھوں کو نمی دی ہے تو نم قائِم رکھ
سرخمِیدہ ہے تِرے سامنے اور یُوں ہی رہے
عِجز بڑھتا ہی رہے، اِس میں یہ خم قائِم رکھ
واقعہ کچھ بھی ہو سچ کہنے میں رسوائی ہے
کیوں نہ خاموش رہوں اہل نظر کہلاؤں