اذیت مصیبت ملامت بلائیں

اذیت مصیبت ملامت بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
سفر کے واسطے کچھ اسباب آج دے ڈالو
بہت سی دعائیں اور نئے خواب دے ڈالو
میرے غموں نے میرے چراغوں کو بجھا رکھا ہے
راہ میں روشنی كے لیے کچھ ماہتاب آج دے ڈالو
آنکھوں کا تھا قصور نہ دل کا قصور تھا
آیا جو میرے سامنے میرا غرور تھا
آواز میں ٹھہراؤ تھا آنکھوں میں نمی تھی
اور کہہ رہا تھا میں نے سب کچھ بھلا دیا
اے شوق نظارہ کیا کہئے نظروں میں کوئی صورت ہی نہیں
اے ذوق تصور کیا کیجے ہم صورت جاناں بھول گئے
بس جاتے ہیں دِل میں اِجازَت لیے بغیر
وہ لوگ جنہیں ہَم زندگی بھر پا نہیں سکتے
ہم کیا کریں اگر نہ تری آرزو کریں
دنیا میں اور بھی کوئی تیرے سوا ہے کیا
اک بار اور دیکھ کر آزاد کر دے مجھے محسن
کہ میں آج بھی تیری پہلی نظر کی قید میں ہوں