ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی

ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
بند کر كے میری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بوجھے جانے کا میں ہر روز تماشا دیکھوں
کیا جانے کیا لکھا تھا اسے اضطراب میں
قاصد کی لاش آئی ہے خط کے جواب میں
اپنی زوجہ كے تعارف میں کہا اک شخص نے
دِل سے ان کا معترف ہوں میں زبانی ہی نہیں
چائے بھی اچھی بناتی ہے میری بیگم مگر
منه بنانے میں تو ان کا کوئی ثانی ہی نہیں
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے
تجھ سے اب اور محبت نہیں کی جا سکتی
خود کو اتنی بھی اذیت نہیں دی جا سکتی
تیری آنکھوں میں آنسو تھے میری خاطر
وہ اِک لمحہ مجھے زندگی سے پیارا لگا