اک نقش بھی ادھر سے اُدھر نہ ہونے پائے
اک نقش بھی ادھر سے اُدھر نہ ہونے پائے
میں جیسا تمہیں ملا تھا مجھے ویسا جدا کر دو
اک نقش بھی ادھر سے اُدھر نہ ہونے پائے
میں جیسا تمہیں ملا تھا مجھے ویسا جدا کر دو
اب دل کا سفینہ کیا ابھرے طوفاں کی ہوائیں ساکن ہیں
اب بحر سے کشتی کیا کھیلے موجوں میں کوئی گرداب نہیں
دنیا پسند آنے لگی دل کو اب بہت
سمجھو کہ اب یہ باغ بھی مرجھانے والا ہے
اپنوں نے نظر پھیری تو دل تو نے دیا ساتھ
دنیا میں کوئی دوست مرے کام تو آیا