کھلونوں کے لئے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے
کھلونوں کے لئے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے
تجھے اے مفلسی کوئی بہانہ ڈھونڈ لینا ہے
کھلونوں کے لئے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے
تجھے اے مفلسی کوئی بہانہ ڈھونڈ لینا ہے
دل کی تمنا تھی مستی میں منزل سے بھی دور نکلتے
اپنا بھی کوئی ساتھی ہوتا ہم بھی بہکتے چلتے چلتے
اب یہ طے ہوا کا آج پِھر ملاقات کریں گے
برسوں کی دوستی پر پِھر سے بات کریں گے
جاڑیں گے تعلقات سے یوں فاصلوں کی دھول
باتوں میں محو ہو كے صبح سے رات کریں گے
چند امیدیں نچوڑی تھیں تو آہیں ٹپکیں
دل کو پگھلائیں تو ہو سکتا ہے سانسیں نکلیں
اسی شہر میں کئی سال سے مرے کچھ قریبی عزیز ہیں
انہیں میری کوئی خبر نہیں مجھے ان کا کوئی پتہ نہیں
تیز ہوائیں آنکھوں میں تو ریت دکھوں کی بھر ہی گئیں
جلتے لمحے رفتہ رفتہ دل کو بھی جھلسائیں گے