جیسے مری نگاہ نے دیکھا نہ ہو کبھی
جیسے مری نگاہ نے دیکھا نہ ہو کبھی
محسوس یہ ہوا تجھے ہر بار دیکھ کر
جیسے مری نگاہ نے دیکھا نہ ہو کبھی
محسوس یہ ہوا تجھے ہر بار دیکھ کر
اور اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرم خاموشی
ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے
باہزاراں اضطراب و صدہزاراں اشتیاق
تجھ سے وہ پہلے پہل دل کا لگانا یاد ہے
بدلا ہوا ہے آج مرے آنسوؤں کا رنگ
کیا دل کے زخم کا کوئی ٹانکا ادھڑ گیا
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لطف مجھ پہ تھے بیشتر وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو