وہ جو کہتا تھا کچھ نہیں ہوتا
وہ جو کہتا تھا کچھ نہیں ہوتا
اب وہ روتا ہے چپ نہیں ہوتا
بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں
مری نظریں بھی ایسے قاتلوں کا جان و ایماں ہیں
نگاہیں ملتے ہی جو جان اور ایمان لیتے ہیں
شباب رفتہ کے قدم کی چاپ سن رہا ہوں میں
ندیم عہد شوق کی سنائے جا کہانیاں
کچھ نہیں کار فلک حادثہ پاشی کے سوا
فلسفہ کچھ نہیں الفاظ تراشی کے سوا
میرے وجود میں بسا وہ گلستاں یاد آتا ہے
اُس کی مٹی کی خوشبو وہ ریگستاں یاد آتا ہے
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے