کوئی یادوں سے جوڑ لے ہم کو
کوئی یادوں سے جوڑ لے ہم کو
ہم بھی اک ٹوٹتا سا رشتہ ہیں
اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں
ڈال کے خاک میرے خون پہ قاتل نے کہا
کچھ یہ مہندی نہیں میری کہ چھپا بھی نہ سکوں
تو وہ بہار جو اپنے چمن میں آوارہ
میں وہ چمن جو بہاراں کے انتظار میں ہے
پھر وہی لمبی دوپہریں ہیں پھر وہی دل کی حالت ہے
باہر کتنا سناٹا ہے اندر کتنی وحشت ہے
خیر بدنام تو پہلے بھی بہت تھے لیکن
تجھ سے ملنا تھا کہ پر لگ گئے رسوائی کو
کیوں چلتے چلتے رک گئے ویران راستو
تنہا ہوں آج میں ذرا گھر تک تو ساتھ دو
وہ تو ایسا تھا كے اک آنسو گرنے کی بھی وجہ پوچھا کرتا تھا
پر نہ جانے کیوں اب اسے برسات کی پہچان نہیں ہوتی