عشق تجھے تاوان میں کیا چاہیے
عشق تجھے تاوان میں کیا چاہیے
میری بازیابی كے لیے کیا جان چاہیے
آتا ہے کون کون میرے غم کو بانٹنے
محسن تو میری موت کی افواہ اڑا کے دیکھ
مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ظفرؔ
صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں
اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے
تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے
اپنے شاداب حسیں چہرے پہ مغرور نہ ہو
زرد چہروں پہ جو لکھے ہیں سوالات سمجھ
ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے
چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر