وابستہ ہو گئیں تھی کچھ امیدیں آپ سے

وابستہ ہو گئیں تھی کچھ امیدیں آپ سے
امیدوں کا چراغ بھجانے کا شکریہ
وابستہ ہو گئیں تھی کچھ امیدیں آپ سے
امیدوں کا چراغ بھجانے کا شکریہ
مجھ پہ اتنے ستم کیا نہ کرو
اے زندگی مجھے رسوا نہ کرو
حقیقت کھلے گی کبھی نہ کبھی تو
خلاف میرے ابھی کوئی فیصلہ نہ کرو
میں تیرے سنگ ابھی اور چل نہِیں سکتا
لِکھا گیا جو مُقدّر میں ٹل نہِیں سکتا
ہر ایک گام پہ کانٹوں کا سامنا تو ہے
چُنا جو راستہ، رستہ بدل نہِیں سکتا
میں بُھوک جھیل کے فاقوں سے مر تو سکتا ہُوں
ٗملیں جو بِھیک میں ٹُکڑوں پہ پل نہِیں سکتا
قسم جو کھائی تو مر کر بھی لاج رکھ لُوں گا
کہ راز دوست کا اپنے اُگل نہِیں سکتا
تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں مرے دل سے بوجھ اتار دو
میں بہت دنوں سے اداس ہوں مجھے کوئی شام ادھار دو