جو زندگی بچی ہے اسے مت گنوائیے
جو زندگی بچی ہے اسے مت گنوائیے
بہتر یہی ہے آپ مجھے بھول جائیے
وہ جسے تم نے مسئلہ سمجھ کر حل کر دیا ہے
وہ حقیقتا کسی کی ذات ہے جسے تم نے قتل کر دیا ہے
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں مومنؔ
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے
شاید وہ محبت کی کوئی اور قسم چاہتا تھا
میں نے اسے اپنا دل دیا پر وہ جسم چاہتا تھا
شمار اُسکی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرِتا ہے چھین کر آنکھیں
شک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو