شاخ سے پھول کو پھر جدا کر دیا
زخم پیڑوں کا کس نے ہرا کر دیا
ایک ٹکڑا خوشی کا تھا رکھا ہوا
جانے کس بات نے غمزدہ کر دیا
کیوں تعلق کی بنیاد ڈھنے لگی
بے یقینی کو کس نے کھڑا کر دیا
پہلے منزل دکھائی مجھے اور پھر
بند چاروں طرف راستہ کر دیا
وقت خود اپنے چہرے سے ڈر جائے گا
میں نے احساس کو آئینہ کر دیا
کون خوش فہمیاں پالتا روز و شب
شکر سے زندگی نے رہا کر دیا
وقت نے چال کیسی چلی اے حسن
دوست جیسے کو دشمن نما کر دیا