وہی کارواں، وہی راستے وہی زندگی وہی مرحلے

وہی کارواں، وہی راستے وہی زندگی وہی مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں
وہی کارواں، وہی راستے وہی زندگی وہی مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی تم نہیں کبھی ہم نہیں
غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں
با مہذب ہے زندگی اپنی
دیا اپنا ہے روشنی اپنی
سر پہ ٹوپی ہے ہاتھ میں ہے قلم
کتنی دلکش ہے سادگی اپنی
مذہب و ذات کی نہیں ہے خبر
کتنی پاکیزہ دوستی اپنی
دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو