چلو رکھتے ہیں وفا عنوانِ گفتگو

چلو رکھتے ہیں وفا عنوانِ گفتگو
پِھر دیکھتے ہیں محفل میں رہتا ہے کون کون
چلو رکھتے ہیں وفا عنوانِ گفتگو
پِھر دیکھتے ہیں محفل میں رہتا ہے کون کون
دیوانوں کو پِھر سے ہے امید وفا کی
دیوانوں نے پِھر ریت پر تحریر لکھی ہے
بے حس ہیں یہاں لوگ بھلا سوچ كے کرنا
اِس دور میں لوگوں سے وفا سوچ كے کرنا
گل شاخ سے بچھڑے تو کہیں کا نہیں رہتا
تم ذات میری خود سے جدا سوچ كے کرنا
اب تو بس جان ہی دینے كے باری ہے محسن
میں کہاں تک ثابت کروں كے وفا ہے مجھ میں
ہم عرض وفا بھی کر نہ سکے کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے
یاں ہم نے زباں ہی کھولی تھی واں آنکھ جھکی شرما بھی گئے
ہَم اِس قدر بھی نہیں اپنی انا کے تابع
تم پکارو تو سہی لوٹ کے آ جائیں گے
اِس دنیا میں کون کرے وفا کسی سے فراز
دِل کے دو حروف وہ بھی جدا جدا