کاش کے کوئی ہمارا وفا دار یار ہوتا
کاش کے کوئی ہمارا وفا دار یار ہوتا
سینہ تان کے چلتے بے وفاؤں کی گلیوں میں
کاش کے کوئی ہمارا وفا دار یار ہوتا
سینہ تان کے چلتے بے وفاؤں کی گلیوں میں
اُنہیں بے وفا جو کہوں تو توہین ہے وفا کی
وہ وفا نبھا رہے ہیں کبھی ادھر کبھی ادھر
یاروں کے ستم ان کی جفا یاد کریں گے
اب ظلم دوستی کی سزا یاد کریں گے
کبھی بھول کر بی نام نہ لیں گے وفا کا
ایسی چوٹ لگی ہے کے سدا یاد کریں گے
ہَم باوفا تھے اِس لیے نظروں سے گر گئے
شاید اسے تلاش کسی بے وفا کی تھی
تلاش وفا سے خود کو کیوں اذیت دیتے ہو وصی
اب مان بھی لو کے اِس دُنیا میں کوئی وفادار نہیں