لو اپنا جہاں دنیا والو ہم ایسے جہاں کو چھوڑ چلے
لو اپنا جہاں دنیا والو ہم ایسے جہاں کو چھوڑ چلے
جو رشتے ناطے جوڑے تھے وہ رشتے ناطے توڑ چلے
کچھ سکھ کے سپنے دیکھ چلے کچھ دکھ کے سپنے جھیل چلے
تقدیر کی اندھی گردش نے جو کھیل کھلائے کھیل چلے
لو اپنا جہاں دنیا والو ہم ایسے جہاں کو چھوڑ چلے
جو رشتے ناطے جوڑے تھے وہ رشتے ناطے توڑ چلے
کچھ سکھ کے سپنے دیکھ چلے کچھ دکھ کے سپنے جھیل چلے
تقدیر کی اندھی گردش نے جو کھیل کھلائے کھیل چلے
حیات اک مستقل غم کے سوا کچھ بھی نہیں شاید
خوشی بھی یاد آتی ہے تو آنسو بن کے آتی ہے
اہلِ دل اور بھی ہیں اہلِ وفا اور بھی ہیں
ایک ہم ہی نہیں دُنیا سے خفا، اور بھی ہیں
تم میرے لیے اب کوئی الزام نہ ڈھونڈو
چاہا تھا تمہیں اک یہی الزام بہت ہے
زمیں نے خون اگلا آسماں نے آگ برسائی
جب انسانوں کے دل بدلے تو انسانوں پہ کیا گزری
غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں
میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا
محبت ترک کی میں نے گریباں سی لیا میں نے
زمانے اب تو خوش ہو زہر یہ بھی پی لیا میں نے
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
اے روح عصر جاگ کہاں سو رہی ہے تو
آواز دے رہے ہیں پیمبر صلیب سے
مزید پڑھیں […]