دینے والے کی مشیت پہ ہے سب کچھ موقوف

دینے والے کی مشیت پہ ہے سب کچھ موقوف
مانگنے والے کی حاجت نہیں دیکھی جاتی
دینے والے کی مشیت پہ ہے سب کچھ موقوف
مانگنے والے کی حاجت نہیں دیکھی جاتی
تیرا گھر اور میرا جنگل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
ایسی برساتیں کہ بادل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
بند کر كے میری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بوجھے جانے کا میں ہر روز تماشا دیکھوں
بدن كے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا
میں دِل سے روؤں گی آنكھوں سے مسکراؤں گی
ریت ہی ریت ہے اِس دِل میں مسافر میرے
اور یہ صحرا تیرا نقش کفِ پا چاہتا ہے
صحرا کی طرح رہتے ہوئے تھک گئی آنکھیں
دکھ کہتا ہے اب کوئی دریا بھی تو دیکھوں
یہ کیا كہ وہ جب چاہے مجھے چھین لے مجھ سے
اپنے لیے وہ شخص تڑپتا بھی تو دیکھوں
وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا