جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا

جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا
یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا
سوچ رہا ہوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ہوا
جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا
یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا
سوچ رہا ہوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ہوا
جب چلے تو تنہا تھے سفر میں محسن
پِھر تم ملے غم ملے تنہائی ملی قافلہ سا بن گیا
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں كے یہ کتبے بھی پڑھا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی كے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
انکار کی سی لذت ، اقرار میں کہاں ہے
بڑھتا ہے عشق محسن ان کی نہیں نہیں سے
ملا تو اور بھی تقسیم کر گیا مجھ کو
سمیٹنا تھی جسے میری کرچیاں محسن
الجھا رہی ہے مجھ کو یہی کشمکش مسلسل محسن
وہ آ بسا ہے مجھ میں یا میں اس میں کھو گیا ہوں
اب یہ سوچا ہے اپنی ذات میں رہیں گے محسن
بہت دیکھ لیا لوگوں سے شناسائی کر كے
تمھیں خبر ہی نہیں كے کوئی ٹوٹ گیا
محبتوں کو بہت پائیدار کرتے ہوئے