ازل سے قائم ہیں دونوں اپنی ضدوں پہ محسن

ازل سے قائم ہیں دونوں اپنی ضدوں پہ محسن
چلے گا پانی مگر کنارہ نہیں چلے گا
ازل سے قائم ہیں دونوں اپنی ضدوں پہ محسن
چلے گا پانی مگر کنارہ نہیں چلے گا
چل پڑا ہوں میں زمانے كے اصولوں پہ محسن
میں اب اپنی ہی باتوں سے مکر جاتا ہوں
اک دیا دل میں جلانا بھی بجھا بھی دینا
یاد کرنا بھی اُسے روز بھلا بھی دینا
کیا کہوں یہ مری چاہت ہے کہ نفرت اُس کی؟
نام ِلکھنا بھی مرا لکھ کے مٹا بھی دینا
پھر نہ ملنے کو بچھڑتا تو ہوں تجھ سے لیکن
مُڑ کے دیکھوں تو پلٹنے کی دعا بھی دینا
سیاہ رات میں جلتے ہیں جگنو کی طرح
دلوں كے زخم بھی محسن کمال ہوتے ہیں
ٹھٹھرتی ہوئی شب سیاح اور وہ بھی طویل تر
محسن ہجر كے ماروں پر قیامت ہے دسمبر
ہمیں تو کب سے پتہ ہے کے تو بے وفا ہے محسن
تجھے چاہا اِس لیے شاید تیری فطرت بَدَل جائے
کہتا تھا كے تو نہ ملا تو مر جاؤں گا محسن
وہ آج بھی زندہ ہے یہی بات کسی اور کو کہنے كے لیے
تیری باتوں میں ذکر اس کا میری باتوں میں ذکر تیرا
عجب عشق ہے محسن نہ تو میرا نہ وہ تیرا