میری قسمت میں غم گر اتنا تھا

میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دِل بھی یا رب کئی دیئے ہوتے
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
تلاش مجھ کو نہ کر دشتِ رہبر میں غالب
نگاہ دل سے دیکھ تیرے کتنا قریب ہوں میں
ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
یہ دنیا مطلب کی ہے تم کس مخلص کی بات کرتے ہو غالب
لوگ جنازہ پڑھنے آتے ہیں وہ بھی اپنے ثواب کی خاطر
بے وجہ نہیں روتا عشق میں کوئی غالب
جسے خود سے بڑھ كے چاہا ہو وہ رلاتا ضرور ہے
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا