جی ڈھونڈتا ہے پِھر وہی فرصت کے رات دن

جی ڈھونڈتا ہے پِھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہے تصور جاناں کیے ہوئے
جی ڈھونڈتا ہے پِھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہے تصور جاناں کیے ہوئے
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانی خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں
گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر
کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاقت سخن
جانوں کسی کے دل کی میں کیونکر کہے بغیر
رگوں میں دوڑتے پھرنے كے ہَم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پِھر لہو کیا ہے