بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
بے خودی لے گئی کہاں ہم کو
دیر سے انتظار ہے اپنا
اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک
پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا
یوں ناکام رہیں گے کب تک جی میں ہے اک کام کریں
رسوا ہو کر مر جاویں اس کو بھی بد نام کریں
اب کر کے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے
ملنے کا وعدہ ان كے تو منه سے نکل گیا
پوچھی جگہ جو میں نے تو کہا ہنس كے خواب میں
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
کہتے تو ہو یوں کہتے یوں کہتے جو وہ آتا
یہ کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا
اقرار میں کہاں ہے انکار کی سی صورت
ہوتا ہے شوق غالب اس کی نہیں نہیں پر