جڑتے ہوئے دیکھا نہیں ٹوٹے ہوئے دِل کو

جڑتے ہوئے دیکھا نہیں ٹوٹے ہوئے دِل کو
گر جائیں جو آنسو تو اٹھائے نہیں جاتے
جڑتے ہوئے دیکھا نہیں ٹوٹے ہوئے دِل کو
گر جائیں جو آنسو تو اٹھائے نہیں جاتے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
قرض نگاہ یار ادا کر چکے ہیں ہم
سب کچھ نثار راہ وفا کر چکے ہیں ہم
کچھ امتحان دست جفا کر چکے ہیں ہم
کچھ ان کی دسترس کا پتا کر چکے ہیں ہم
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
آج تنہائی کسی ہمدم دیریں کی طرح
کرنے آئی ہے میری ساقی گیری شام ڈھلے
منتظر بیٹھے ہے ہَم دونوں كے مہتاب ابھرے
اور ترا عکس جھلکنے لگے ہر سائے تلے
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسم دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوز محبت کے سوا
کوئی بت کئی خدا یاد نہیں