اب وہی حرف جنوں سب کی زبان ٹھہری ہے
اب وہی حرف جنوں سب کی زبان ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آج تک شیخ كے اکرام میں جو شے تھی حرام
اب وہی دشمن دین، راحت جان ٹھہری ہے
اب وہی حرف جنوں سب کی زبان ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آج تک شیخ كے اکرام میں جو شے تھی حرام
اب وہی دشمن دین، راحت جان ٹھہری ہے
دل نا امید تو نہیں ، ناكام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام ، مگر شام ہی تو ہے
نہ شاعر ہوں میں نہ شعور عشق مجھ کو فیض
میں تو لکھتا ہوں كے حال دِل بیاں کر سکوں