ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبان چمن

ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبان چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام
ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبان چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام
ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا
اب اپنا اختیار ہے چاہے جہاں چلیں
رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہیں ہم
کب ٹھہرے گا درد اے دِل ، کب رات بسر ہو گی
سنتے تھے وہ آئیں گے ، سنتے تھے سحر ہو گی
قرب کے نہ وفا کے ہوتے ہیں
سارے جگڑے انا کے ہوتے ہیں
بات نیت کی ہے صرف ورنہ
وقت سارے دعا کے ہوتے ہیں
وہ آ رہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے
شب فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے
آواز میں ٹھہراؤ تھا آنکھوں میں نمی تھی
اور کہہ رہا تھا میں نے سب کچھ بھلا دیا