جو بات نہیں کرتے
جو بات نہیں کرتے
ان بولتے رنگوں میں
میں نے تمهیں سوچا ہے
جو دل سے گزرتے ہیں
ان دلفریب راستوں پہ
میں نے تمهیں دیکها ہے
جو بات نہیں کرتے
ان بولتے رنگوں میں
میں نے تمهیں سوچا ہے
جو دل سے گزرتے ہیں
ان دلفریب راستوں پہ
میں نے تمهیں دیکها ہے
اِس قدر پیار سے اے جان جہاں رکھا ہے
دِل كے رخصار پہ اِس وقت تیری یاد نے ہاتھ
یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابحی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آ بھی گئی وصل کی رات
چہرے پہ میرے زلف کو پھیلاؤ کسی دن
کیا روز گرجتے ہو برس جاؤ کسی دن
رازوں کی طرح اترو میرے دل میں کسی شب
دستک پہ میرے ہاتھ کی کھل جاؤ کسی دن
پیڑوں کی طرح حسن کی بارش میں نہالوں
بادل کی طرح جھوم کے گھِر آؤ کسی دن
بہت نزدیک ہو کر بھی وہ اتنا دور ہے مجھ سے
اشارہ ہو نہیں سکتا پکارا جا نہیں سکتا
اپنی گلی میں اپنا ہی گھر ڈھونڈتے ہیں لوگ
امجد یہ کون شہر کا نقشہ بدل گیا
تو غبار سفر میں خزاں کی صدا
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
میں نے ساری خدائی میں تجھ کو چنا
تو سمندر ہے میں ساحلوں کی ہوا
تیرے جمال سے آنکھیں حَسِین ہیں میری
تیرے خیال سے دِل میں چراغ جلتے ہیں
صرف احساس ندامت اک سجدہ اور چشم تر
اے خدا کتنا آسان ہے منانا تجھ کو