ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
علامہ اقبال کی شاعری ، غزلیں اور مشہور اشعار کا مجموعہ پڑھیے- آپ کا شمار اردو کے مقبول ترین شعرا میں ہوتا ہے- آپ پاکستان کے قومی شاعری بھی ہیں
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھ
نہ پوچھو مجھ سے لذتِ خانماں برباد رہنے کی
نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
منصُور کو ہُوا لبِ گویا پیامِ موت
اب کیا کسی کے عشق کا دعویٰ کرے کوئی
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر
ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
میں انتہائے عشق ہوں، تُو انتہائے حُسن
دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی
عذر آفرینِ جرمِ محبّت ہے حُسنِ دوست
محشر میں عذرِ تازہ نہ پیدا کرے کوئی
چھُپتی نہیں ہے یہ نگہِ شوق ہم نشیں!
پھر اور کس طرح اُنھیں دیکھا کرے کوئی
اَڑ بیٹھے کیا سمجھ کے بھلا طُور پر کلیم
طاقت ہو دید کی تو تقاضا کرے کوئی
نظّارے کو یہ جُنبشِ مژگاں بھی بار ہے
نرگس کی آنکھ سے تجھے دیکھا کرے کوئی
کھُل جائیں، کیا مزے ہیں تمنّائے شوق میں
دو چار دن جو میری تمنا کرے کوئی
ڈھُونڈتا پھرتا ہوں اے اقبالؔ اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر، آپ ہی منزل ہوں میں
کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مرد خلیق
دِل سے جو بات نکلتی ہے ، اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے