آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا

آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائے گا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائے گا
میرے صبر کی انتہا کیا پوچھتے ہو فراز
وہ مجھ سے لپٹ كے رویا کسی اور كے لیے
لوگ پتھر كے بتوں کو پوج کر بھی معصوم رہے فراز
ہَم نے اک انسان کو چاہا اور گنہگار ہو گئے
اب ترے ذکر پہ ہم بات بدل دیتے ہیں
کتنی رغبت تھی ترے نام سے پہلے پہلے
اب تو ہمیں بھی ترکِ مراسم کا دکھ نہیں
پر دِل یہ چاہتا ہے كے آغاز تو کرے
جو زہر پی چکا ہوں تمہیں نے مجھے دیا
اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو
اِس دنیا میں کون کرے وفا کسی سے فراز
دِل کے دو حروف وہ بھی جدا جدا