اک غزل میر کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا

اک غزل میر کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا
اک نمی سی میری دیوار میں آ جاتی ہے
اک غزل میر کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا
اک نمی سی میری دیوار میں آ جاتی ہے
مانتا ہوں تمہیں کچھ اور بھی لوگ چاہتے ہیں
سن ! جو ہر کسی کو مل جائے بہت عام سی چیز ہوتی ہے
دِل کو چھو جاتی ہے یوں رات کی آواز کبھی زید
چونک اٹھتی ہو کہیں تو نے پکارا ہی نہ ہو
میر ان نیم باز آنكھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
دیکھ تو دِل كے جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
بزعم خود لبِ محبوب پر سوال ہے کیا
جہاں میں کوئی میرے حسن کی مثال ہے کیا
بنانے والا خدا، داد دینے والا میں
بتا كے حسن میں تیرے تیرا کمال ہے کیا
پِھر جوگی جی بیدار ہوئے اِس چھیڑ نے اتنا کم کیا
پِھر عشق كے اِس متوالے نے یہ وحدت کا اک جام دیا
واں پریم کا ساگر چلتا ہے چل دِل کی پیاس بھجا جوگی
واں دِل کا غنچہ کھلتا ہے گا گلیوں میں موہن ملتا ہے
وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پِھراس كے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
الفاظ گرا دیتے ہیں جذبات کی قیبت
ہر بات کو الفاط میں تولا نہیں کرتے