ہَم سے روٹھا بھی گیا ہَم کو منایا بھی گیا

ہَم سے روٹھا بھی گیا ہَم کو منایا بھی گیا
پِھر سبھی نقش تعلق كے مٹائے بھی گئے
ہَم سے روٹھا بھی گیا ہَم کو منایا بھی گیا
پِھر سبھی نقش تعلق كے مٹائے بھی گئے
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
جب کبھی ٹوٹ کر بکھرو تو بتانا ہَم کو
ہَم تمہیں ریت كے ذروں سے بھی چن سکتے ہیں
ہائے وہ لوگ گئے چاند سے ملنے اور پھر
اپنے ہی ٹوٹے ہوئے خواب اٹھا کر لے آئے
ماں تب بھی روتی تھی جب بیٹا کھانا نہیں کھاتا تھا
ماں آج بھی روتی ہے جب بیٹا کھانا نہیں دیتا
آ دیکھ تیرے پیار میں کھا کھا کے ٹھوکریں
انتا سنبھل گیا ہوں کہ دنیا سنبھال لوں
بچے اسکول جائیں اور واپس نہ آئیں
اے خدا ایسا دسمبر پھر کبھی نہ آئے
دور ہو پھر بھی پاس لگتے ہو
دن کے اجالے میں
دھندلی سی شام لگتے ہو
کوی کہانی ہو داستان ہو تم
اپنے آپ میں پوری اک کتاب لگتے ہو