پیاس کہتی ہے اب ریت نچوڑی جائے

پیاس کہتی ہے اب ریت نچوڑی جائے
اپنے حصے میں سمندر نہیں آنے والا
بہت نزدیک ہو کر بھی وہ اتنا دور ہے مجھ سے
اشارہ ہو نہیں سکتا پکارا جا نہیں سکتا
بہت ناز تھا مجھے اپنے چاہنے والوں پر
میں عزیز تھا سب کو مگر ضرورتوں كے لیے
بہت درد چھپے ہیں رات كے ہر پہلو میں
اچھا ہو كے کچھ دیر كے لیے نیند آ جائے
اس درد کی دنیا سے گزر کیوں نہیں جاتے
یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے
ہے کون زمانے میں مرا پوچھنے والا
ناداں ہیں جو کہتے ہیں کہ گھر کیوں نہیں جاتے
شعلے ہیں تو کیوں ان کو بھڑکتے نہیں دیکھا
ہیں خاک تو راہوں میں بکھر کیوں نہیں جاتے
آنسو بھی ہیں آنکھوں میں دعائیں بھی ہیں لب پر
بگڑے ہوئے حالات سنور کیوں نہیں جاتے
تمام عمر اسی كے خیال میں گزری فراز
میرا خیال جسے عمر بھر نہیں آیا
عجیب طرح سے دونوں ناكام ہوئے محسن
وہ مجھے چاہ نہ سکا اور میں اسے بھلا نہ سکا
جواب دیتا ہوں میں بھی کمال آنكھوں سے
وہ لے كے آتے ہیں جب بھی سوال آنكھوں میں