مجھے نکال كے مجھ میں سے کوئی دفن کرو

مجھے نکال كے مجھ میں سے کوئی دفن کرو
بدن میں اپنے ہی گھٹ گھٹ كے مر چکا ہوں میں
مجھے نکال كے مجھ میں سے کوئی دفن کرو
بدن میں اپنے ہی گھٹ گھٹ كے مر چکا ہوں میں
تیری خاطر ہم اک شام چرانے نکلے
دَرد میں ڈھال كے خود کو آزمانے نکلے
پِھر انہی ترسی نظروں سے تماشا دیکھا
بات اتنی سے تھی کے سب زخم پُرانے نکلے
کسی حرف میں کسی باب میں نہیں آئے گا
ترا ذکر میری کتاب میں نہیں آئے گا
رات ہے اندھیری بہت اک دیا ہی جلا دے کوئی
میں برسوں کا جاگا ہوں مجھے سلا دے کوئی
آج کی رات بھی ممکن ہے نہ سو سکوں محسن
یاد پِھر آئی ہے نیندوں کو اڑانے والی
نظر جو مجھ سے ملا کر گیا ہے
میرے ہوش وہ اڑا کر گیا ہے
اس كے سوا کچھ یاد نہیں
ہر نقش ذہن سے مٹا کر گیا ہے
ازل سے قائم ہیں دونوں اپنی ضدوں پہ محسن
چلے گا پانی مگر کنارہ نہیں چلے گا