باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجا لیں تم کو

باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجا لیں تم کو
جی میں آتا ہے كہ تعویذ بنا لیں تم کو
کبھی خوابوں کی طرح آنکھ كے پردے میں رہو
کبھی خواہش کی طرح دل میں بلا لیں تم کو
باندھ لیں ہاتھ پہ سینے پہ سجا لیں تم کو
جی میں آتا ہے كہ تعویذ بنا لیں تم کو
کبھی خوابوں کی طرح آنکھ كے پردے میں رہو
کبھی خواہش کی طرح دل میں بلا لیں تم کو
کیوں چھپاتے ہو ثانی کیوں انکار کرتے ہو
تمہاری آنکھیں کہتی ہیں تم بھی پیار کرتے ہو
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہَم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہَم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
بڑا مزہ ہو کہہ محشر میں ہم کریں شکوہ
وہ منتوں سے کہیں چُپ رہو خدا كے لیے
جی تو کرتا ہے اسے مفت میں جان دے دوں
فراز اتنے معصوم خریدار سے کیا لینا دینا
اسے میں نے دیکھا
تو سوچا ، کہہ اب چاند نے
اپنے سورج سے
لو مانگنا چھوڑ دی ہے
ہر شام تیری یار میں جلتا ہوا دیکھوں
کب تک دِل بیتاب مچلتا ہوا دیکھوں
آنچل کی طرح تن سے لپٹ جاؤں تیرے
اور خود کو تیری ذات میں دہلتا ہوا دیکھوں
میں جب بھی چاہوں اسے چھو كے دیکھ سکتی ہوں
مگر وہ شخص کہ لگتا ہے اب بھی خواب ایسا