یوں تسلی دے رہے ہیں ہم دل بیمار کو

یوں تسلی دے رہے ہیں ہم دل بیمار کو
جس طرح تھامے کوئی گرتی ہوئی دیوار کو
یوں تسلی دے رہے ہیں ہم دل بیمار کو
جس طرح تھامے کوئی گرتی ہوئی دیوار کو
تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ایسے تو حالات نہیں
ایک ذرا سا دل ٹوٹا ہے اور تو کوئی بات نہیں
ایک وہ دن تھا کے بنا دید تڑپ جاتے تھے
ایک یہ دن كے بہل جاتے ہے پیغاموں سے
نہ جانے کون سی منزل پہ آ پہنچا ہے پیار اپنا
نہ ہم کو اعتبار اپنا نہ ان کو اعتبار اپنا
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
سنا ہے اس کو محبت دعائیں دیتی ہے
جو دِل پہ چوٹ تو کھائے مگر گلہ نہ کرے