عشق کو بھی عشق ہو تو پِھر میں دیکھوں عشق کو

عشق کو بھی عشق ہو تو پِھر میں دیکھوں عشق کو
کیسے تڑپے کیسے روئے عشق اپنے عشق میں
عشق کو بھی عشق ہو تو پِھر میں دیکھوں عشق کو
کیسے تڑپے کیسے روئے عشق اپنے عشق میں
اسے پانا اسے کھونا اسی كے ہجر میں رونا
یہی گر عشق ہے محسن تو ہَم تنہا ہی اچھے تھے
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں
بے وجہ نہیں روتا عشق میں کوئی غالب
جسے خود سے بڑھ كے چاہا ہو وہ رلاتا ضرور ہے
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
معشوق سے بھی ہم نے نبھائی برابری
واں لطف کم ہوا تو یہاں پیار کم ہوا
عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
اپنی زباں سے کچھ نہ کہیں گے چپ ہی رہیں گے عاشق لوگ
تم سے تو اتنا ہو سکتا ہے پوچھو حال بیچاروں کا