دو دن کی زندگی ہے کیا کرو گے الجھ کر

دو دن کی زندگی ہے کیا کرو گے الجھ کر
رہو تو پھول کی مانند بکھرو تو خوشبو بن کر
دو دن کی زندگی ہے کیا کرو گے الجھ کر
رہو تو پھول کی مانند بکھرو تو خوشبو بن کر
دینا پڑے کچھ ہی ہرجانہ سچ ہی لکھتے جانا
مت گھبرانا مت ڈر جانا سچ ہی لکھتے جانا
باطل کی منہ زور ہوا سے جو نہ کبھی بجھ پائیں
وہ شمعیں روشن کر جانا سچ ہی لکھتے جانا
شاخوں سے ٹوٹ جائیں وہ پتے نہیں ہیں ہم
آندھی سے کوئی کہہ دے کہ اوقات میں رہے
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت ذرخیز ہے ساقی
موجوں كی تپش کیا ہے فقط زوق طلب ہے
پنہاں جو صدف میں ہیں وہ دولت ہے خدا داد
غبارِ راہ سے کہہ دو سنبھالے نقشِ قدم
زمانہ ڈھونڈے گا پِھر ان کو رہبری كے لیے
جو رکے تو کوہِ گراں تھے ہَم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہَم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
دستور
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا