تیری صورت کو دیکھنے والے
تیری صورت کو دیکھنے والے
سنا ہے کوئی اور نشہ نہیں کرتے
دم ادا میں تیرے جو اسیر ہوگئے
عاشقی ہوئی یہاں تک كے میر ہوگئے
حسن وجمال کی تیرے کرکے مصوری
آخر کو ہم بھی اک تصویر ہوگئے
جدوجہد مسلسل ہے ، منزل کی آرزو
زندگی كے اِس سفر میں راہگیر ہوگئے
نظر نظر کا فرق ہوتا ہے حسن کا نہیں اقبال
محبوب جس کا بھی ہو جیسا بھی ہو بے مثال ہوتا ہے
بزعم خود لبِ محبوب پر سوال ہے کیا
جہاں میں کوئی میرے حسن کی مثال ہے کیا
بنانے والا خدا، داد دینے والا میں
بتا كے حسن میں تیرے تیرا کمال ہے کیا
عشق کا اپنا غرور حسن کی اپنی انا
ان سے آیا نہ گیا ہم سے بھلایا نہ گیا