جِسم تھا نُور اِسے ہم نے ہی پہنائی رات

جِسم تھا نُور اِسے ہم نے ہی پہنائی رات
کھا گئی دِن کے اُجالوں کو یہاں چھائی رات
شب کے دامن میں فقط خواب ہے محرُومی ہے
ہم کو مفہُوم یہ سمجھانے چلی آئی رات
جِسم تھا نُور اِسے ہم نے ہی پہنائی رات
کھا گئی دِن کے اُجالوں کو یہاں چھائی رات
شب کے دامن میں فقط خواب ہے محرُومی ہے
ہم کو مفہُوم یہ سمجھانے چلی آئی رات
بس رہے ہیں اس نگر میں جِن و اِنساں ایک ساتھ
یہ رِوایت چل پڑی ہے ظُلم و احساں ایک ساتھ
اب توقع ہم سے رکھنا خیر خواہی کی عبث
ہم نے سارے توڑ ڈالے عہد و پیماں ایک ساتھ
چھا گئی ہے زِندگی پر اب تو فصلِ رنج و غم مزید پڑھیں […]
لگی ڈھلنے ہے پھر سے شام ساقی
بنا کر دے ذرا اِک جام ساقی
پِلا وہ جام جو مدہوش کر دے
مِلے دل کو بھی کچھ آرام ساقی
لعنت ہو حُکمرانوں کے ایسے نِظام پر
افلاس مُنتظر ہے جہاں گام گام پر
ہر روز قِیمتوں میں اِضافہ ہے بے پناہ
جُوں تک بھی رِینگتی نہیں ابنِ غُلام پر
یونہی تو نہیں مجھکو ہیں محبوب یہ آنسو
سدا رہتے ہیں تیرے ہجر سے منسوب یہ آنسو
مے سے بھی کہیں بڑھ کر، مجھے مخمور رکھتے ہیں
پسندیدہ ہے ان دنوں میرا مشروب یہ آنسو
تمام عُمر اُسے مُجھ سے اِختِلاف رہا
رہا وہ گھر میں مِرے پر مِرے خِلاف رہا
خبر نہِیں کہ تِرے من میں چل رہا یے کیا؟
تِری طرف سے مِرا دِل ہمیشہ صاف رہا
جو ہمارے بِیچ میں تھا فاصلہ رہنے دیا
اپنی کشتی کا پُرانا نا خُدا رہنے دیا
لُوٹ کا تھا مال آخِر بانٹنا تو تھا ضرُور
ہم نے اپنا لے لیا بخرا، تِرا رہنے دیا
خوشبو سے رنگ، رنگ سے خوشبو نکال دے
دل کو بجھا کے شہرِ تمنا اجال دے
اپنے عمل کا آپ ہی اچھا سا نام رکھ
کم ظرفئ نگاہ کو حسن ِ مآل دے